Breaking

Sunday 21 January 2018

मौलाना अबुल जलाल नदवी मोहिउद्दीनपुरी

 تبصرہ : مولانا ابو الجلال ندوی ۔۔۔ رفیع الزماں زبیری

مولانا ابوالجلال ندوی شمالی ہند کے علما کے ایک نامور خاندان کے فرد تھے۔ ندوہ سے اور پھر دارالمصنفین اعظم گڑھ سے تعلق تھا۔ ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی پر عبور تھا۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ کے عالم تھے، لسانیات اور ادبیات عالم ان کا خاص موضوع تھا تاریخ و تحقیق کے آدمی تھے، دماغ ان کا ہزاروں کتابوں کا حافظ تھا۔ احمد حاطب صدیقی نے جو ان کے چھوٹے بھائی کے بیٹے ہیں، ان کی یاد داشتیں مرتب کی ہیں۔ یہ یادداشتیں دیدہ، شنیدہ اور خواندہ ہیں۔ اس کتاب کا عنوان بھی یہی ہے۔

مولانا ابوالجلال کے آبائی گاؤں محی الدین میں جس علم پرور خاندان کی آبادی تھی اس کا تعلق حضرت صدیق اکبرؓ کی نسل سے تھا۔ یہ وہ اعزاز تھا جس پر اس خاندان کو بجا طور پر فخر تھا۔ احمد حاطب اپنی نانی سے روایت کرتے ہیں ’’جلال علم کا سمندر تھے جس موضوع پر بات کرنے بیٹھتے گھنٹوں بولتے رہتے مگر نہ بولنے والا تھکتا، نہ سننے والوں کو اکتاہٹ ہوتی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔‘‘

ندوۃ العلما سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اعظم گڑھ میں مولانا سلیمان ندوی نے انھیں دارالمصنفین میں رفیق کی حیثیت سے بلالیا۔ یہاں رہ کر ابوالجلال نے ہر قسم کے علوم اور فنون میں گہری نظر پیدا کی۔ قرآن و تفسیر، حدیث و فقہ کے ساتھ انھوں نے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں پر بھی دسترس حاصل کرلی۔ مولانا بتاتے تھے کہ دارالمصنفین میں زیادہ تر وہ مضامین اور مقالے لکھتے تھے اور جو کتابیں چھپتی تھیں ان پر تنقید و تبصرہ بھی کرتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کا ذکر کرتے ہوئے، مولانا ابوالجلال نے کہا ’’اس میں شبہ نہیں کہ سید صاحب علامہ شبلی سے بڑے عالم تھے۔ سید صاحب کی کتاب زیادہ محققانہ ہے۔ علمی سرمایہ ان کے پاس بہت تھا۔‘‘

مولانا ابوالجلال کچھ عرصے بعد دارالمصنفین چھوڑ کر مدراس چلے گئے اور وہاں جمالیہ عربک کالج میں پرنسپل ہوگئے۔ اس کالج میں عربی کی تعلیم کے ساتھ دینیات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مدراس میں اٹھارہ انیس سال گزار کر مولانا 1946 میں ایک بار پھر اعظم گڑھ آگئے اور دارالمصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں آکر انھوں نے ’’اعلام القرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھنی شروع کی۔ اس موضوع پر جب مولانا کے مضامین ’’معارف‘‘ میں چھپنے شروع ہوئے تو علمی حلقوں میں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ اصحاب علم کی طرف سے تعریف و تحسین کے خطوط آنے شروع ہوگئے۔ ان مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا جلال کی قرآن مجید، صحف بنی اسرائیل اور سامی اقوام پر ان کی نظر کتنی گہری اور عربی کے علاوہ عبرانی پر انھیں کتنا عبور تھا۔

احمد طب صدیقی بتاتے ہیں کہ مولانا جلال 1950 میں آٹھ سال کے لیے پھر مدراس گئے۔ اس بار ان کی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ انھوں نے مدراس کے کتب خانوں سے استفادہ کیا اور حیرت انگیز علمی اکتشافات کیے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس دور میں موئن جو دڑو کی نو دریافتہ مہریں مولانا کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنیں۔ یہاں انھوں نے ان مہروں پر ابتدائی کام کیا۔ یہیں انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ موئن جو دڑو کے رسم الخط کا رشتہ عبرانی اور عربی زبانوں سے ہے اور وادیٔ سندھ کی اس قدیم تہذیب کا تعلق انبیائے ماسبق اور مسلم تہذیب سے ہے۔‘‘

مدراس کے قیام میں مولانا ابوالجلال ندوی نے ایک ہفتہ وار اور ایک سہ روزہ اخبار شایع کیا اور دو ماہانہ جریدوں کی ادارت کی۔ یہاں ان کو بین المذاہب مکالمات کے مواقع بھی ملے۔موئن جو دڑو کی زبان کے بارے میں مولانا ابوالجلال کا کہنا تھا ’’اس کا رسم الخط دراصل عبرانی، عربی اور سنسکرت کے رسم الخط کی بنیاد ہے۔ یہ زبان قریب قریب عبرانی تھی لیکن اس وقت کسی اور نام سے موسوم تھی۔ میں نے قرآن مجید کے حروف مقطعات کی تفہیم کے لیے ہر قوم اور ہر زبان کی ابجد کو جمع کرنا شروع کیا تھا۔ انھی تمام ابجدوں کی وجہ سے میں اس زبان کو پڑھنے کے قابل ہوسکا۔ میں اب تک دو ہزار کے قریب کتبوں اور مہروں کو پڑھ چکا ہوں۔ رسم الخط کا ایک ارتقائی عمل مجھے ان مہروں میں نظر آتا ہے۔ مثلاً ایک درخت کی تصویر پندرہ مہروں پر ہے۔ ہر مہر میں درخت کی تصویر مختلف انداز سے گھٹتی چلی گئی ہے اور آخر میں بالکل مختصر ہوگئی ہے اور تقریباً ایک باقاعدہ حرف کی شکل بن گئی ہے۔‘‘احمد حاطب نے مولانا ابوالجلال کے جنھیں وہ بڑے ابا کہتے تھے کچھ دلچسپ دیکھے، سنے اور پڑھے ہوئے واقعات اس کتاب میں لکھے ہیں۔ ایک مرتبہ بڑے ابا نے ان سے پوچھا، یہ بتاؤ ہر جگہ ہفتہ سات دن کا کیوں ہوتا ہے؟ حاطب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کہنے لگے ہر سات دن کے بعد چاند کی شکل تبدیل ہوجاتی ہے۔ ابتدائی سات دنوں میں وہ ہلال سے شروع ہوکر نصف تک پہنچ جاتا ہے۔ اگلے سات دنوں میں پورا چاند بن جاتا ہے۔ بعد کے سات دنوں میں وہ پھر آدھا ہوجاتا ہے اور آخر سات دنوں کے بعد ازسر نو طلوع ہونے کے بعد غائب ہوجاتا ہے۔

مولانا ابوالجلال جس زمانے میں ندوہ میں قیام پذیر تھے ان کے ساتھ ایک حیرت انگیز واقع پیش آیا۔ ہوا یہ کہ ایک دن مولانا اپنے کمرہ ٔ درس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک انھوں نے اپنے والد کے چچا مولانا واحد علی کو سامنے سے گزرتے دیکھا۔ مولانا کو حج پر جانے کی بڑی آرزو تھی جو ناساز حالات کی وجہ سے پوری نہیں ہوسکی۔ مولانا جلال نے دیکھا کہ مولانا واحد علی اپنے معمول کے لباس میں ہیں۔ اپنی مخصوص شیروانی پہنے، مخصوص ٹوپی لگائے ہوئے ہیں۔ یہ بھی دیکھا کہ ایک شخص ان کا بستر لیے ان کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ یہ غیر متوقع منظر دیکھ کر مولانا ابوالجلال چونک گئے۔ ’’ارے دادا؟‘‘ پھر دوڑتے ہوئے کمرۂ جماعت سے باہر نکلے اور سلام کرکے پوچھا ’’دادا! آپ یہاں کہاں؟‘‘

انھوں نے جواب دیا ’’بیٹا! ہمارا انتقال ہوچکا ہے اور ہم مدینہ منورہ جا رہے ہیں، سوچا کہ تم سے ملتے چلیں۔‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ غائب ہوگئے۔ مولانا جلال گویا جاگتے میں خواب دیکھنے کی کیفیت سے گزرگئے۔چونکہ یہ صورت ناممکنات میں سے تھی، اس لیے مولانا نے اسی وقت ایک پوسٹ کارڈ لکھ کر اس واقع کی اطلاع اپنے گاؤں محی الدین پور بھیجی۔ معلوم ہوا کہ یہ وہی دن، وہی تاریخ اور وہی وقت تھا جب مولانا واحد علی صدیقی کا انتقال ہوا تھا۔احمد حاطب صدیقی لکھتے ہیں کہ اپنی والدہ سے یہ قصہ سننے کے بعد ہم نے خود بڑے ابا مولانا ابوالجلال سے اس کی تصدیق چاہی تو انھوں نے صرف اتنا کہا کہ ’’ہاں ایسا ہوا تھا۔‘‘ حاطب نے جب مزید پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص عین اپنے انتقال کے وقت بہ ظاہر زندہ حالت میں میلوں دور کا سفر اور کلام کرے تو مولانا ابوالجلال نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ’’دنیا میں بہت سے واقعات ایسے ہوتے رہتے ہیں جن کی ہم کوئی توجیہہ نہیں کرسکتے۔‘‘

سمعی چیزیں مشکوک ہوتی ہیں، لیکن اپنی آنکھوں دیکھی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ ہماری جبلت کا تقاضا ہے۔ ہر آنکھ دیکھی بات مطابق واقع نہیں ہوتی۔ ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ سورج مشرق سے طلوع ہوا، مغرب کی طرف چلا، پھر کسی شے کے پیچھے چھپ گیا۔ دوسری صبح کو دو بارہ مشرق سے طلوع ہوا۔ ہم نے بلکہ آدم سے لے کر آج تک کے سارے انسانوں نے یقین کرلیا کہ سورج زمین کا طواف کرتا ہے، اس کے گرد چکر لگاتا ہے مگر ستارہ شناسوں نے ثابت کردیا ہے کہ واقعہ یہ ہے زمین پھرکی کی طرح اپنے محور پر سورج کے سامنے ناچتی ہے۔ اس لیے صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، دن گزرتا ہے، رات آتی ہے۔
                س 
Ahmad Hatib Siddiqui Mohiuddinpuri



No comments:

Post a Comment