Breaking

Monday 30 July 2018

کیا مسلمان اس ملک کا برابر کا شہری نہیں؟؟؟ :-परवेज़ अहमद आज़मी राष्ट्रीय उलेमा कौंसिल

چند سوالات سیاسی مداریوں سے۔
کیا مسلمان اس ملک کا برابر کا شہری نہیں؟؟؟
کیا 188 فیصد مسلمانوں کو پسماندہ رکھ کر ملک کو ترقی یافتہ بنانا ممکن ہے؟؟؟
کیا جنگ آزادی میں مسلمانوں کی جانی اور مالی قربانیاں کسی دوسرے سے کم تھیں؟؟؟
مسلمان فرقہ پرستوں کے نشانے پر کیوں رہتے ہیں؟؟؟
مسلمانوں کی منھ بھرائی کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے؟؟؟
اگر کسی قوم کے 900 فیصد سے زیادہ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں تو مذہب کی بنیاد پر ان کو ریزرویشن کیوں نہیں دیا جا سکتا؟؟؟
اگر ہندو دلت اور بچھڑا طبقہ اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان یا عیسائی ہو جائے تو اس کی مراعات ختم کیوں کر دی جاتی ہیں؟ کیا یہ مذہبی بنیاد پر تفریق نہیں ہوئی؟؟؟ اور
سپریم کورٹ میں دفعہ 3411 میں مذھبی قید ہٹانے سے متعلق جو رٹ داخل ھے اس کے بارے میں سرکار اپنا جواب کیوں داخل نھیں کر رھی ھے؟ جس کی وجہ سے برسوں سے کیس معرض التواء میں پڑا ھوا ھے.
خلاصہ کلام یہ ھے کہ دو کام آسانی سے ھو سکتے ھیں، ایک یہ کہ دفعہ 341 سے مذھبی قید ھٹا کر تمام شیڈول کاشٹ کے لوگوں کو استفادہ کا موقع دینا. اس کیلئے صرف ایک صدارتی آرڈیننس کی ضرورت ھے. اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی 14 برادریوں کو فائدہ پہونچے گا اور اسمبلیوں، پارلیمنٹ میں جانے اور ملازمتوں و تعلیمی اداروں میں داخلے کا راستہ ھموار ھو جائے گا.
دوسرا کام جو آسانی سے ھو سکتا ھے، یہ ھے کہ او بی سی کیلئے جو 27 فیصد ریزرویشن ھے اس میں آبادی کے لحاظ سے مسلم برادریوں کا سب کوٹہ الگ کر دیا جائے، یہ کام ریاستی سرکاریں کر سکتی ھیں ۔
مسلمانوں کو اس سلسلے میں دوٹوک اعلان کر دینا چاھئے کہ جو پارٹی ھمارے ساتھ یہ انصاف کرنے کیلئے تیار ھوگی اور صاف صاف اپنے منشور میں لکھے گی اور پریس کانفرس میں اعلان کرے گی، ھمارا ووٹ اسی کو ملے گا.
انصاف نھیں تو ووٹ نھیں. …

No comments:

Post a Comment